اہل غم سے عشرت عالم کا ساماں ہو گیا
جب زمیں کی داغ ابھر آئے گلستاں ہو گیا
اپنی حد سے بڑھ کے جاتا کس طرف کو دل مرا
جان پڑتے ہی یہ مشت خاک بے جاں ہو گیا
عشق کے بعد اب حوادث کی ضرورت کیا رہی
آسماں دم لے مرے مرنے کا ساماں ہو گیا
حشر میں پہچان کر قاتل کا منہ تکنے لگا
جب ضرورت ہوش کی دیکھی تو حیراں ہو گیا
خفتگان خاک کتنا بے محل سوئے کہ اب
مجمع احباب اک خواب پریشاں ہو گیا
انقلاب آ کر مدد دیتے ہیں استعداد کو
کروٹیں بدلیں لہو نے اور انساں ہو گیا
راستہ وحشت کو آخر مل گیا تنگی میں بھی
یہ گریباں تھا جو دو ہاتھوں میں داماں ہو گیا
وسعت صحن جہاں کچھ کم نہ تھی اے عشق دوست
کیوں گھٹا اتنا کہ دل والوں کو زنداں ہو گیا
باغباں کی رائے میں میں بے حقیقت تھا مگر
بعد میرے آشیاں داغ گلستاں ہو گیا
رک چلا ہے بیچ میں خنجر الٰہی خیر ہو
دم نہ نکلے گا اگر قاتل پشیماں ہو گیا
ایک قطرہ بحر عصیاں کا تھا جو یوں سر چڑھا
پلتے پلتے دامن عالم میں طوفاں ہو گیا
جب کوئی آنسو مژہ پر آ کے چمکا شام غم
میں یہ سمجھا صبح کا تارا نمایاں ہو گیا
شکر شانے کا کروں یا صبر کو ڈھونڈوں کہیں
زلف تو سمٹی مگر ہاں دل پریشاں ہو گیا
کم سے کم پر آج راضی ہیں شہیدوں کے مزار
آپ ہنس دیں گے تو سمجھیں گے چراغاں ہو گیا
جس میں لاکھوں پھول تھے ثاقبؔ وہ باغ دل کشا
ایک ہی گردش میں گردوں کی بیاباں ہو گیا
غزل
اہل غم سے عشرت عالم کا ساماں ہو گیا
ثاقب لکھنوی