اہل دنیا دیکھتے ہیں کتنی حیرانی کے ساتھ
زندگی ہم نے بسر کر لی ہے نادانی کے ساتھ
اک تمناؤں کا بحر بیکراں تھا اور ہم
کشتیٔ جاں کو بچا لائے ہیں آسانی کے ساتھ
اب کسے دل کے دھڑکنے کی صدائیں یاد ہیں
یہ بھی ہنگامہ گیا اس گھر کی ویرانی کے ساتھ
اے ہوا تو نے تو سارے معرکے سر کر لیے
صبح فردا پاس بیٹھی ہے پشیمانی کے ساتھ
دشت وحشت سے بھلا کرتا ہے آنکھیں چار کون
شہر بڑھتے جا رہے ہیں اپنی عریانی کے ساتھ
تو نہیں آتا نہ آ اے دوست اب تیری طرح
ہم بھی چل نکلے ہیں اپنے دشمن جانی کے ساتھ
غزل
اہل دنیا دیکھتے ہیں کتنی حیرانی کے ساتھ
مہتاب حیدر نقوی