اہل دل نے عشق میں چاہا تھا جیسا ہو گیا
اور پھر کچھ شان سے ایسی کہ سوچا ہو گیا
عیب اپنی آنکھ کا یا فیض تیرا کیا کہوں
غیر کی صورت پہ مجھ کو تیرا دھوکا ہو گیا
تجھ سے ہم آہنگ تھا اتنا کشش جاتی رہی
میں ترا ہم قافیہ تھا عیب ایطا ہو گیا
یاد نے آ کر یکایک پردہ کھینچا دور تک
میں بھری محفل میں بیٹھا تھا کہ تنہا ہو گیا
کشتیٔ صبر و تحمل میری طوفانی ہوئی
رات کو تیرا بدن جب موج دریا ہو گیا
کیا ہوا گر تیرے ہونٹوں نے مسیحائی نہ کی
تیری آنکھیں دیکھ کر بیمار اچھا ہو گیا
عشق مٹی کا عجب تھا مجھ کو بچپن میں سلیمؔ
کھیل میں کیا سوچتا میں جسم میلا ہو گیا
غزل
اہل دل نے عشق میں چاہا تھا جیسا ہو گیا
سلیم احمد