عہد وفا سبک ہوا رنگ وفا کے ساتھ ساتھ
روح سخن بدل گئی طرز ادا کے ساتھ ساتھ
سر میں لیے تری ہوا عازم شہر دل چلا
نکہت گل کے ہم رکاب موج صبا کے ساتھ ساتھ
ڈھنگ بدلتے جائیں گے رنگ مچلتے آئیں گے
لغزش پا کی طرز میں رنگ حنا کے ساتھ ساتھ
ایک ترے خیال نے فکر کو پر لگا دیے
ہم بھی ہواؤں میں رہے موج ہوا کے ساتھ ساتھ
تا یہ سفر حیات کا مقصد زندگی بنے
چاہیے مرکز نگاہ گردش پا کے ساتھ ساتھ
لذت نا امیدی شوق بھی مستقل تو ہو
ترک طلب بھی کیجیے ترک دعا کے ساتھ ساتھ
آپ ہی کہہ کے سنتے ہیں آپ ہی سن کے ہنستے ہیں
اپنی ہی بازگشت ہیں اپنی صدا کے ساتھ ساتھ
حق بھی ہے مصلحت طلب رخ پہ ہوائے دہر کے
چلتے ہیں اب خدا پرست خلق خدا کے ساتھ ساتھ
باقرؔ کم عیار کی قدر کہاں تھی زیست میں
اٹھ کے خموش چل دیا وہ بھی قضا کے ساتھ ساتھ
غزل
عہد وفا سبک ہوا رنگ وفا کے ساتھ ساتھ
سجاد باقر رضوی