عہد وفا کا قرض ادا کر دیا گیا
محرومیوں کا درد عطا کر دیا گیا
پھولوں کے داغ ہائے فروزاں کو دیکھ کر
ارزاں کچھ اور رنگ حنا کر دیا گیا
وارفتگان شوق کا شکوہ سنے بغیر
گلشن سپرد اہل جفا کر دیا گیا
دل سے امنگ لب سے دعا چھین لی گئی
کہنے کو قیدیوں کو رہا کر دیا گیا
یک دو نفس بھی کار زیاں ہم نہ کر سکے
خوشبو کو پیرہن سے جدا کر دیا گیا
مانگی تھی عافیت کی دعا آگہی کا غم
پہلے سے بھی کچھ اور سوا کر دیا گیا
اخترؔ ہوس گران عقیدت کے فیض سے
سب کچھ روا بہ نام خدا کر دیا گیا
غزل
عہد وفا کا قرض ادا کر دیا گیا
اختر ضیائی