EN हिंदी
عہد صد مصلحت‌‌ اندیش نبھانا پڑے گا | شیح شیری
ahd-e-sad-maslahat-andesh nibhana paDega

غزل

عہد صد مصلحت‌‌ اندیش نبھانا پڑے گا

علی یاسر

;

عہد صد مصلحت‌‌ اندیش نبھانا پڑے گا
مسکرانے کے لئے غم کو بھلانا پڑے گا

جانتے ہیں کہ اجڑ جائیں گے ہم اندر سے
مانتے ہیں کہ تمہیں شہر سے جانا پڑے گا

آمد فصل بہاراں پہ کوئی جشن تو ہو
دوستو دل پہ کوئی زخم کھلانا پڑے گا

چشم بد دور یہی اک مرا سرمایہ ہے
تیری یادوں کو زمانے سے چھپانا پڑے گا

تمہیں جانا ہے چلے جاؤ مگر شرط یہ ہے
کہ بلا ناغہ تمہیں خواب میں آنا پڑے گا

خود کو پہچان نہیں پائیں گے چہروں والے
انہیں آئینۂ اوقات دکھانا پڑے گا

نظر انداز بھی کر سکتے ہو اخلاص مرا
یہ کوئی قرض نہیں ہے جو چکانا پڑے گا

شاعری ہو تو نہیں سکتی کبھی تیرا بدل
کیا کریں دل تو کہیں اور لگانا پڑے گا

تھک نہ جائے وہ کہیں ہم پہ ستم کرتے ہوئے
یاسرؔ اس کا بھی ہمیں ہاتھ بٹانا پڑے گا