عہد خورشید میں ذروں کی حقیقت کیا ہے
گرد تو آپ ہی چھٹ جائے گی عجلت کیا ہے
بات کیجے جو اجالوں کی تو وہ کہتے ہیں
وصل کی رات اجالے کی ضرورت کیا ہے
چند بے زور شجر چند کھلائے ہوئے پھول
اور گلچیں کی گلستاں پہ عنایت کیا ہے
کوچۂ زہر فروشاں میں نکل آیا ہوں
کوچۂ یار میں سقراط کی قیمت کیا ہے
راکھ ہو جاتے ہیں کتنے ہی اصولوں کے چراغ
تب کہیں جا کے خبر ہوتی ہے شہرت کیا ہے
ہے مرے شعر میں کچھ اس کی شباہت ورنہ
پھول کیا چیز ہیں کلیوں کی صباحت کیا ہے
دل قلندر ہو تو انسان ستاروں سے بلند
افسری جاہ و حشم دولت و شہرت کیا ہے
سر وہی ہے جو کسی تاج کا محتاج نہ ہو
زلف جاناں نظر آئے تو حکومت کیا ہے
ہو جسے جرأت انکار میسر خالدؔ
اس کو مٹی کے کھلونوں کی ضرورت کیا ہے
غزل
عہد خورشید میں ذروں کی حقیقت کیا ہے
خالد یوسف