اگلے پڑاؤ پر یوں ہی خیمہ لگاؤ گے
جتنی بھی ہے سفر کی تھکن بھول جاؤ گے
باہر ہوائے تیز لگائے ہوئے ہے گھات
گھر سے جو نکلے اب کہ پلٹ کر نہ آؤ گے
ہر شخص اپنے آپ میں مصروف ہے یہاں
کس کو فسانۂ دل مضطر سناؤ گے
تابندہ خواب دیکھ کر آنکھیں کھلیں گی جب
ظلمات کے بغیر یہاں کچھ نہ پاؤ گے
اک دوسرے سے ہو کے الگ خوش رہے گا کون
تڑپیں گے ہم بھی خود بھی تم آنسو بہاؤ گے
جا تو رہے ہو جنس وفا کی تلاش میں
ساتھ اپنے یاسیت کے سوا کچھ نہ لاؤ گے
گرداب سامنے ہے مخالف ہوائیں ہیں
کشتی کو کیسے جانب ساحل گھماؤ گے
جس کو خلوص سمجھے ہوئے تھے وہ کیا ہوا
کتنا یقین تھا تمہیں دھوکا نہ کھاؤ گے
پربت ہیں برف پوش قدم دیکھ بھال کر
عابدؔ پھسل گئے تو سنبھلنے نہ پاؤ گے
غزل
اگلے پڑاؤ پر یوں ہی خیمہ لگاؤ گے
عابد مناوری