اگر زباں سے نہ اشک رواں سے گزرے گا
تو پھر غبار طبیعت کہاں سے گزرے گا
ہمارے نقش قدم راہ میں بنائے رکھو
ابھی زمانہ اسی کہکشاں سے گزرے گا
ابھی تو بجلیاں ٹوٹیں گی خرمن دل پر
ابھی تو قافلہ شہر بتاں سے گزرے گا
نصیب ہوں گی اسے سرفرازیاں کیا کیا
جو سر جھکا کے ترے آستاں سے گزرے گا
اسی سے راستے پوچھیں گے خیریت میری
وہ میرے شہر میں تنہا جہاں سے گزرے گا
میں سوچتا ہوں رہے گا جو فاصلہ قائم
زمانہ ان کے مرے درمیاں سے گزرے گا
نصیب ہوں گی اسے کامیابیاں نظمیؔ
خوشی کے ساتھ جو ہر امتحاں سے گزرے گا
غزل
اگر زباں سے نہ اشک رواں سے گزرے گا
نظمی سکندری آبادی