اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو
تو ایسی راہ سے گزرو جو راہ عام نہ ہو
سنا تو ہے کہ محبت پہ لوگ مرتے ہیں
خدا کرے کہ محبت تمہارا نام نہ ہو
بہار عارض گلگوں تجھے خدا کی قسم
وہ صبح میرے لیے بھی کہ جس کی شام نہ ہو
مرے سکوت کو نفرت سے دیکھنے والے
یہی سکوت کہیں باعث کلام نہ ہو
الٰہی خیر کہ ان کا سلام آیا ہے
یہی سلام کہیں آخری سلام نہ ہو
مجھے تو راس نہ آئی حیات نو لیکن
خطا معاف تمہارا بھی یہ مقام نہ ہو
جمیلؔ ان سے تعارف تو ہو گیا لیکن
اب ان کے بعد کسی سے دعا سلام نہ ہو
غزل
اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو
جمیلؔ مرصع پوری