EN हिंदी
اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو | شیح شیری
agar ye zid hai ki mujhse dua salam na ho

غزل

اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو

جمیلؔ مرصع پوری

;

اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو
تو ایسی راہ سے گزرو جو راہ عام نہ ہو

سنا تو ہے کہ محبت پہ لوگ مرتے ہیں
خدا کرے کہ محبت تمہارا نام نہ ہو

بہار عارض گلگوں تجھے خدا کی قسم
وہ صبح میرے لیے بھی کہ جس کی شام نہ ہو

مرے سکوت کو نفرت سے دیکھنے والے
یہی سکوت کہیں باعث کلام نہ ہو

الٰہی خیر کہ ان کا سلام آیا ہے
یہی سلام کہیں آخری سلام نہ ہو

مجھے تو راس نہ آئی حیات نو لیکن
خطا معاف تمہارا بھی یہ مقام نہ ہو

جمیلؔ ان سے تعارف تو ہو گیا لیکن
اب ان کے بعد کسی سے دعا سلام نہ ہو