EN हिंदी
اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے | شیح شیری
agar ye raushni qalb o nazar se aai hai

غزل

اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے

شاہین مفتی

;

اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے
تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے

مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں
شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے

گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے
مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے

روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا
کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے

اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ
کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے