اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے
تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے
مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں
شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے
گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے
مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے
روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا
کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے
اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ
کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے
غزل
اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے
شاہین مفتی