اگر یقین نہ رکھتے گمان تو رکھتے
ہم اپنے ہونے کا کوئی نشان تو رکھتے
تمام دن جو کڑی دھوپ میں سلگتے ہیں
یہ پیڑ سر پہ کوئی سائبان تو رکھتے
ہماری بات سمجھ میں تو ان کی آ جاتی
ہم اپنے ساتھ کوئی ترجمان تو رکھتے
ہمیں سفر کا خسارہ پسند تھا ورنہ
مسافرت کی تھکن سر پہ تان تو رکھتے
مشاہدات کا در لازماً کھلا ہوتا
ہم اپنی آنکھ سوئے شمع دان تو رکھتے
جلا کے بیٹھ گئے دامن سحر ناسکؔ
ستارے ٹوٹ رہے تھے تو دھیان تو رکھتے
غزل
اگر یقین نہ رکھتے گمان تو رکھتے
اطہر ناسک