EN हिंदी
اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو | شیح شیری
agar us ka mera jhagDa yahin tai ho to achchha ho

غزل

اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو

نوح ناروی

;

اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو
خدا جانے خدا کے سامنے کل کیا نہ ہو کیا ہو

گزرتی ہے بشر کی زندگی کس وہم باطل میں
جو ایسا ہو تو ایسا ہو جو ایسا ہو تو ایسا ہو

شب خلوت یہ کہنا بار بار اس کا بناوٹ سے
ہمیں چھیڑے تو غارت ہو ہمیں دیکھے تو اندھا ہو

وہ ہر دم کی عیادت سے مری گھبرا کے کہتے ہیں
غضب میں جان ہے اپنی نہ مر جائے نہ اچھا ہو

وہ فرماتے ہیں مجھ کو دیکھ کر میں یوں نہ مانوں گا
اگر یہ نوحؔ ہے طوفان اٹھائے غرق دنیا ہو