اگر تم دل ہمارا لے کے پچھتائے تو رہنے دو
نہ کام آئے تو واپس دو جو کام آئے تو رہنے دو
مرا رہنا تمہارے در پہ لوگوں کو کھٹکتا ہے
اگر کہہ دو تو اٹھ جاؤں جو رحم آئے تو رہنے دو
کہیں ایسا نہ کرنا وصل کا وعدہ تو کرتے ہو
کہ تم کو پھر کوئی کچھ اور سمجھائے تو رہنے دو
دل اپنا بیچتا ہوں واجبی دام اس کے دو بوسے
جو قیمت دو تو لو قیمت نہ دی جائے تو رہنے دو
دل مضطرؔ کی بیتابی سے دم الجھے تو واپس دو
اگر مرضی بھی ہو اور دل نہ گھبرائے تو رہنے دو
غزل
اگر تم دل ہمارا لے کے پچھتائے تو رہنے دو
مضطر خیرآبادی