اگر سنے تو کسی کو یقیں نہیں آئے
مکاں بلاتے رہے اور مکیں نہیں آئے
وہ چند لفظ جو کچھ بھی نہیں سوا سچ کے
وہ چند لفظ بیاں میں کہیں نہیں آئے
تو کیا ہوا جو یہ تن مل رہے ہیں مٹی میں
ابھی وہ خواب تو زیر زمیں نہیں آئے
ابھی سے ناز نہ کر اتنا خوش لباسی پر
ابھی تو بزم میں وہ نکتہ چیں نہیں آئے
کسی کی آنکھ میں روشن ہیں جیسی تعبیریں
ادھر تو خواب بھی اتنے حسیں نہیں آئے

غزل
اگر سنے تو کسی کو یقیں نہیں آئے
شعیب نظام