EN हिंदी
اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم | شیح شیری
agar shama hue to gal gae hum

غزل

اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم

قاسم علی خان آفریدی

;

اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم
جو پروانہ ہوئے تو جل گئے ہم

پڑے آ کر فلک کے آسیا میں
مثال دانہ ہائے دل گئے ہم

کسی صورت نہ پایا ہم نے آرام
یہاں سے واں کے تئیں بے کل گئے ہم

نہ یاں سے لے گئے نہ واں سے لائے
کف افسوس ناحق مل گئے ہم

طلسمات‌ جہاں کا دیکھ ظاہر
طرف معنی کے اب اوجھل گئے ہم

چلے آئے تھے تاریکی سے لیکن
پہ چلتے وقت لے مشعل گئے ہم

نہ آیا ہاتھ وہ دیر و حرم میں
ملا جب دل کے در مندل گئے ہم

اگر سمجھو گے معنی شیخ صاحب
گئے پر تم کو کر قائل گئے ہم

رہے گا نام افریدیؔ کا تا حشر
ہمیں تھے جو کہ لا طائل گئے ہم