اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے
طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے
لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے
یقیں کے قافلے ہم راہ بے شمار چلے
نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے
کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے
یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے
یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے
یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے
وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے
یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی
جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے
غزل
اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے
آلوک شریواستو