EN हिंदी
اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے | شیح شیری
agar sabit-qadam ho ishq mein jiyun shama jal sakiye

غزل

اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے

عشق اورنگ آبادی

;

اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے
مقابل تند خو کی تیغ ابرو کے سنبھل سکیے

ہمارے اشک خونیں نے حنائی رنگ لایا ہے
ارے دل اس کے پاؤں پر یہ آنکھیں اب تو مل سکیے

پلک سے جس طرح آنسو گزر جاتا ہے اک پل میں
صراط اوپر خدا کا فضل شامل ہو تو چل سکیے

نکلنا صید کا صیاد کے پھاندے سے مشکل ہے
نہیں آسان اے دل دام دنیا سے نکل سکیے

لگی جب شمع کی سی طرح آتش عشق کے سر کو
تصور شعلہ رو کا باندھ کر جل جل پگھل سکیے