اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے
مقابل تند خو کی تیغ ابرو کے سنبھل سکیے
ہمارے اشک خونیں نے حنائی رنگ لایا ہے
ارے دل اس کے پاؤں پر یہ آنکھیں اب تو مل سکیے
پلک سے جس طرح آنسو گزر جاتا ہے اک پل میں
صراط اوپر خدا کا فضل شامل ہو تو چل سکیے
نکلنا صید کا صیاد کے پھاندے سے مشکل ہے
نہیں آسان اے دل دام دنیا سے نکل سکیے
لگی جب شمع کی سی طرح آتش عشق کے سر کو
تصور شعلہ رو کا باندھ کر جل جل پگھل سکیے
غزل
اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے
عشق اورنگ آبادی