اگر نہ مانیں نہ سمجھو کہ جانتے ہی نہیں
ضدوں کی بات بھی ہے کچھ مغالطے ہی نہیں
مطالبات محبت ہیں میں ہوں اور تم ہو
عجیب ہے یہ مثلث کہ زاویے ہی نہیں
مرے جنوں کے بھروسے پر کہہ دیا اس نے
ہم آئے آپ کے گھر پر تو آپ تھے ہی نہیں
بیاض دل کی کریں تو کریں کہاں اصلاح
کتابت ایسی ہوئی ہے کہ حاشیے ہی نہیں
اسی محیط میں واپس پلٹ کے آنا تھا
تو بن کے ابر کبھی جا سے ہم اٹھے ہی نہیں
اجاڑ ہو گیا صحرائے دل کہ جیسے یہاں
غزال و ضیغم و کرگس کبھی رہے ہی نہیں
اب اس مقام پہ بیم و رجا ہیں بے معنی
کہ چاہتے ہیں اسے جس کو چاہتے ہی نہیں
یہی ہے راستہ اب دوریاں بڑھائیں گے
بڑھیں ہم اس کی طرف کیسے فاصلے ہی نہیں
کوئی فریب کہ ہم جس سے دل کو بہلائیں
تلاش کرتے ہیں خط اس نے جو لکھے ہی نہیں
غزل
اگر نہ مانیں نہ سمجھو کہ جانتے ہی نہیں
محمد اعظم