EN हिंदी
اگر خدا نہ کرے سچ یے خواب ہو جائے | شیح شیری
agar KHuda na kare sach ye KHwab ho jae

غزل

اگر خدا نہ کرے سچ یے خواب ہو جائے

دشینتؔ کمار

;

اگر خدا نہ کرے سچ یے خواب ہو جائے
تری سحر ہو مرا آفتاب ہو جائے

حضور عارض و رخسار کیا تمام بدن
مری سنو تو مجسم گلاب ہو جائے

اٹھا کے پھینک دو کھڑکی سے ساغر و مینا
یے تشنگی جو تمہیں دستیاب ہو جائے

وہ بات کتنی بھلی ہے جو آپ کرتے ہیں
سنو تو سینے کی دھڑکن رباب ہو جائے

بہت قریب نہ آؤ یقیں نہیں ہوگا
یے آرزو بھی اگر کامیاب ہو جائے

غلط کہوں تو مری عاقبت بگڑتی ہے
جو سچ کہوں تو خودی بے نقاب ہو جائے