EN हिंदी
اگر کہنے سے پہلے ہو رہا ہے | شیح شیری
agar kahne se pahle ho raha hai

غزل

اگر کہنے سے پہلے ہو رہا ہے

مژدم خان

;

اگر کہنے سے پہلے ہو رہا ہے
نہ پوچھو کس طرح سے ہو رہا ہے

محبت وقت سے پہلے تو کر لی
گھڑی کا شوق کیسے ہو رہا ہے

ہمارے دل میں کچھ اس کی وجہ سے
وہ مانے یا نہ مانے ہو رہا ہے

تماشا دیکھنے آئی ہو میرا
کہ کیسے چاند ٹکڑے ہو رہا ہے

تری فوٹو بنا کر کیا بتاؤں
کہ کیا کچھ کیمرے پے ہو رہا ہے

محبت صبر دونوں کر رہا ہوں
ذرا سوچو یہ کیسے ہو رہا ہے

وہ جب بھی عشق کا کہتی ہے مجھ سے
میں کہہ دیتا ہوں او کے ہو رہا ہے

میں خوابوں کو بناتا ہوں حقیقت
یہ آنکھوں کے ذریعے ہو رہا ہے

یہ عاشق فلسفی تھا اس سے پہلے
یہ جائز ہے جو اس پے ہو رہا ہے