اگر ہوں گویا تو پھر بے تکان بولتے ہیں
مگر یہ لوگ لہو کی زبان بولتے ہیں
زمیں جو پاؤں کے نیچے ہے اس کا مالک ہوں
پہ میرے نام پہ کتنے لگان بولتے ہیں
چھپا نہ قتل مرا احتیاط کے با وصف
جو اس نے چھوڑے نہیں وہ نشان بولتے ہیں
زمیں پہ جب کوئی مظلوم آہ بھرتا ہے
ستارے ٹوٹتے ہیں آسمان بولتے ہیں
چھپائے چھپتے نہیں حادثے جو گزرے ہوں
مکین چپ ہوں تو احمدؔ مکان بولتے ہیں
غزل
اگر ہوں گویا تو پھر بے تکان بولتے ہیں
احمد حسین مجاہد