EN हिंदी
اگر ہواؤں کے رخ مہرباں نہیں ہوتے | شیح شیری
agar hawaon ke ruKH mehrban nahin hote

غزل

اگر ہواؤں کے رخ مہرباں نہیں ہوتے

مینک اوستھی

;

اگر ہواؤں کے رخ مہرباں نہیں ہوتے
تو بجھتی آگ کے تیور جواں نہیں ہوتے

دلوں پہ برف جمی ہے لبوں پہ صحرا ہے
کہیں خلوص کے جھرنے رواں نہیں ہوتے

ہم اس زمین کو اشکوں سے سبز کرتے ہیں
یہ وہ چمن ہے جہاں باغباں نہیں ہوتے

کہاں نہیں ہیں ہمارے بھی خیر خواہ مگر
جہاں گہار لگاؤ وہاں نہیں ہوتے

ادھر تو آنکھ برستی ہے دل دھڑکتا ہے
یہ سانحات تمہارے یہاں نہیں ہوتے

وفا کا ذکر چلایا تو ہنس کے بولے وہ
فضول کام ہمارے یہاں نہیں ہوتے