اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے
تو سو سو بار بلبل گر پڑی ہے
نظر کیا جائے سوئے شیشہ و جام
ہماری آنکھ ساقی سے لڑی ہے
یہ ہے جوش بہار ان کے چمن میں
کہ ہر اک شاخ پھولوں کی چھڑی ہے
سنی رفعت سلیماں کی تو بولے
ہماری اک انگوٹھی گر پڑی ہے
تمہاری زلف سے کم ہے شب ہجر
مگر روز قیامت سے بڑی ہے
اک آنے کا ہے اک جانے کا ہنگام
یہ قصہ زندگی کا دو گھڑی ہے
نہیں ہٹتی تمہارے چہرے سے زلف
یہ شاید بوسہ لینے پر اڑی ہے
ہزاروں داغ لاکھوں حسرتیں ہیں
ہمارے دل کی بھی بستی بڑی ہے
ہوا کیا جلد خاک اپنا تن زار
جہاں ہم تھے وہاں مٹی پڑی ہے
مرے ہیں در پہ ہم وہ پوچھتے ہیں
یہ کس کی لاش رستے میں پڑی ہے
جو دیکھی ہے نگاہ مست ساقی
تو بجلی لڑکھڑا کے گر پڑی ہے
جو اپنا مال ہوگا خیر ہوگا
رشیدؔ اب تو ہمیں دل کی پڑی ہے
غزل
اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے
رشید لکھنوی