اگر دشمن کی تھوڑی سی مرمت اور ہو جاتی
تو پھر الو کے پٹھے کو نصیحت اور ہو جاتی
شب وعدہ میں ان کی کمسنی سے ڈر گیا ورنہ
ذرا سی بات پر نازل مصیبت اور ہو جاتی
یہی اچھا ہوا تو نے جو زلفوں کو منڈا ڈالا
نہیں تو تیرے دیوانوں کی حالت اور ہو جاتی
اگر تم نیم عریاں حشر کے میداں میں آ جاتے
قیامت میں پھر اک برپا قیامت اور ہو جاتی
شراب ناب کی کرتا مذمت پھر نہ بھولے سے
جو مے خانہ میں واعظ کی مرمت اور ہو جاتی
نہ ان کی کمسنی سے میں سزا پاتا عدالت سے
جو ان کے آشناؤں کی شہادت اور ہو جاتی
لگا کرتی ہزاروں عاشقوں کو بے خطا پھانسی
حسینوں کی اگر گھر کی عدالت اور ہو جاتی
خطا پیشاب دشمن کا ہوا گھر ان کے پٹنے سے
مزا جب تھا کہ سالے کو اجابت اور ہو جاتی
ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے گرانی نے
مرے اللہ یہ دنیا سے غارت اور ہو جاتی
اگر بوسہ دیا ہے وصل کا وعدہ بھی کر لیجے
عنایت کی تو تھوڑی سی عنایت اور ہو جاتی
اگر دل کو بچاتا میں نہ زلفوں کے اڑنگے سے
تو دنیا بھر سے لمبی شام فرقت اور ہو جاتی
دعا ہے بومؔ کی یا رب یہ کاٹن ملز کی بابت
ترقی اور ہوتی زیب و زینت اور ہو جاتی
غزل
اگر دشمن کی تھوڑی سی مرمت اور ہو جاتی
بوم میرٹھی