اگر الفاظ سے غم کا ازالہ ہو گیا ہوتا
حقیقت تو نہ ہوتی بس دکھاوا ہو گیا ہوتا
اگر اپنا سمجھ کر صرف اک آواز دے جاتے
یقیں مانو کہ میرا دل تمہارا ہو گیا ہوتا
شب فرقت میں جتنے خواب بھی ملنے کے دیکھے تھے
اگر تعبیر ملتی تو اجالا ہو گیا ہوتا
نہ کرتے منقطع گر تم مراسم کی حسیں راہیں
تو قاصد خط مرا دینے روانہ ہو گیا ہوتا
محبت کی اگر پاکیزگی پر تم یقیں کرتے
تو مل کر تم سے پورا سب خسارا ہو گیا ہوتا
مری آشفتگی پر اب زمانے کو تعجب کیوں
اگر الفت نہ ہوتی دل سیانا ہو گیا ہوتا
دل فرقت زدہ میں ہے جو اک ناسور مدت سے
معالج گر سمجھ پاتا افاقہ ہو گیا ہوتا
جو دکھ کی فصل بوئی ہے تو اب دکھ کاٹنا ہوگا
مکافات عمل سمجھے اشارہ ہو گیا ہوتا
یہ حکمت ہے سبیلہؔ زیست میں رب نے کمی رکھی
وگرنہ ہر بشر خود میں خدا سا ہو گیا ہوتا
غزل
اگر الفاظ سے غم کا ازالہ ہو گیا ہوتا
سبیلہ انعام صدیقی