افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک
یہ شام تو اک شام قیامت ہے سحر تک
کوئی تو اندھیروں میں اجالوں کا سبب ہو
مانا کہ چراغوں کی حقیقت ہے سحر تک
اب ہم پہ جو آئی تو کسی طور نہ گزری
سنتے تھے شب غم کی طوالت ہے سحر تک
پھر راکھ بھی ہو جائیں تو ہو جائیں بلا سے
آنکھوں کے حوالوں کی ضرورت ہے سحر تک
جس رات کھلا مجھ پہ وہ مہتاب کی صورت
وہ رات ستاروں کی امانت ہے سحر تک
سورج پہ حکومت ہے یہاں دیدہ وروں کی
سینوں کی سلگنے کی اجازت ہے سحر تک
گونجے گا ہر اک حلقۂ زنجیر اسیراں
خاموشیٔ زنداں کی اذیت ہے سحر تک
یہ رقص بلا ساز جنوں خیز پہ اظہرؔ
یہ محفل ہنگامۂ وحشت ہے سحر تک
غزل
افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک
اظہرنقوی