EN हिंदी
افسوس کیا جو ہم بھی تمہارے نہیں رہے | شیح شیری
afsos kya jo hum bhi tumhaare nahin rahe

غزل

افسوس کیا جو ہم بھی تمہارے نہیں رہے

سردار سوز

;

افسوس کیا جو ہم بھی تمہارے نہیں رہے
تم بھی کسی کے ہو کے ہمارے نہیں رہے

اب شکوۂ فریب محبت نہ کیجیے
ہم بھی کسی کی آنکھ کے تارے نہیں رہے

یہ حسن اتفاق ہے پھر مل گئے ہیں وہ
یہ اور بات ہے کہ ہمارے نہیں رہے

تم بھی تعلقات کی حد سے گزر گئے
ہم بھی کسی کو جان سے پیارے نہیں رہے

جب سے چلے گئے وہ بہاروں کو لوٹ کر
حسن بہار کے وہ نظارے نہیں رہے

ہم جن کے ہو گئے تھے زمانے کو چھوڑ کر
قسمت تو دیکھیے وہ ہمارے نہیں رہے

شعر و سخن کی محفلوں کی رونقیں گئیں
چھجے نہیں رہے وہ چوبارے نہیں رہے

میری مراد کا ہے سفینہ بھی نامراد
طوفان رک گیا تو کنارے نہیں رہے

وہ چشم شرمگیں کی فسوں کاریاں گئیں
وہ چشم سرمگیں کے اشارے نہیں رہے

شالوں میں عشق کے بھی وہ چنگاریاں نہیں
بس آگ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے

جاتے ہوئے وہ صبر و سکوں ساتھ لے گیا
بہتے ہوئے سکون کے دھارے نہیں رہے

رعنائی جمال گل افشاں کی خیر ہو
اب حسن دل ربا کے نظارے نہیں رہے

دل کو تھا ابتدائے محبت میں جن پہ ناز
وہ اپنی زندگی کے سہارے نہیں رہے

بے نور کر گیا کوئی دنیا کو سوزؔ کی
وہ چاند چھپ گیا وہ ستارے نہیں رہے