افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک
ہر اہل نظر مجھ سے ہے انجان ابھی تک
صدیوں کے تغیر سے بنی صورت انساں
انسان نہیں ہے مگر انسان ابھی تک
الہام سے ابہام سے ایہام سے چھوٹے
کتنے ہیں خیالات پریشان ابھی تک
کتنے ہی کھلے فہم و فراست کے دریچے
ہیں قید جہالت میں ہم انسان ابھی تک
ہیں دیر و حرم کچھ کہ نہیں دیر و حرم کچھ
ٹھہرا نہیں میرا کہیں ایمان ابھی تک
ہم اہل تذبذب کا فسانہ بھی عجب ہے
کافر ہی بنے ہیں نہ مسلمان ابھی تک
تسکین کی صورت کوئی ملتی نہیں اعظمؔ
میری نگہ شوق ہے حیران ابھی تک

غزل
افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک
ڈاکٹر اعظم