EN हिंदी
افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک | شیح شیری
afsos bani hi nahin pahchan abhi tak

غزل

افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک

ڈاکٹر اعظم

;

افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک
ہر اہل نظر مجھ سے ہے انجان ابھی تک

صدیوں کے تغیر سے بنی صورت انساں
انسان نہیں ہے مگر انسان ابھی تک

الہام سے ابہام سے ایہام سے چھوٹے
کتنے ہیں خیالات پریشان ابھی تک

کتنے ہی کھلے فہم و فراست کے دریچے
ہیں قید جہالت میں ہم انسان ابھی تک

ہیں دیر و حرم کچھ کہ نہیں دیر و حرم کچھ
ٹھہرا نہیں میرا کہیں ایمان ابھی تک

ہم اہل تذبذب کا فسانہ بھی عجب ہے
کافر ہی بنے ہیں نہ مسلمان ابھی تک

تسکین کی صورت کوئی ملتی نہیں اعظمؔ
میری نگہ شوق ہے حیران ابھی تک