افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو
بلبل کے ذرا درد کو گلزار سے کہہ دو
سودائے محبت نے کیا ہے مجھے مجنوں
جا سلسلۂ گیسوئے دلدار سے کہہ دو
مجھ تشنۂ دیدار کی ہے ہونٹوں پہ اب جان
للہ یہ چاہ زقن یار سے کہہ دو
گردن پہ مری سر یہ بہت بار گراں ہے
تیغ دو دم ابروئے خم دار سے کہہ دو
اس چشم سے کہہ دو مری رنجوری کی حالت
پیغام یہ بیمار کا بیمار سے کہہ دو
ہوں بندۂ الفت نہیں مذہب کی ہے خواہش
یہ حال مرا سبحہ و زنار سے کہہ دو
منصور صفت دل سے نکلتا ہے انا الحق
یہ حال مرا جلد سر دار سے کہہ دو
مژگان ستم گر نے کیا مجھ کو ہے بسمل
اعجاز مسیحائے لب یار سے کہہ دو
آثمؔ ہی ہوا کافر عشق شہ خادم
اس رمز کو ہر صاحب اسرار سے کہہ دو
غزل
افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو
شاہ آثم