افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے
بھرتے رہے الم میں فسون طرب کا رنگ
ان تلخیوں میں زہر ملاتے چلے گئے
اپنے نیاز شوق پہ تھا زندگی کو ناز
ہم زندگی کے ناز اٹھاتے چلے گئے
ہر اپنی داستاں کو کہا داستان غیر
یوں بھی کسی کا راز چھپاتے چلے گئے
میں جتنا ان کی یاد بھلاتا چلا گیا
وہ اور بھی قریب تر آتے چلے گئے
غزل
افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
صوفی تبسم