افکار کے جگر میں رقصاں رفو کی خواہش
احساس کے سبو میں جیسے نمو کی خواہش
عظمت کے آئنے میں اپنائیت کا پیکر
تسلیم کی تمنا ہے تم سے تو کی خواہش
تنہائی کی تپش سے قندیل قربتوں کی
رشتوں کی تازگی سے ہے گفتگو کی خواہش
صحرا کے سنگ ریزے کہسار کے کرشمے
جن کی جلن کا تیشہ ہے آب جو کی خواہش
خوبی پہ خوش نہ ہونا انسانیت سے نفرت
احباب کی برائی خود سے عدو کی خواہش
آتش انا کی ابھرے خرمن خودی کا جھلسے
ایمانؔ کیسے جاگے، ہو آبرو کی خواہش!
غزل
افکار کے جگر میں رقصاں رفو کی خواہش
مجیب ایمان