عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں
نظر چرا کے ہم ان کی نظر کو دیکھتے ہیں
وہ رکھ کے ہاتھ سے آئینہ تن کے بیٹھ گئے
دہن کو دیکھ چکے اب کمر کو دیکھتے ہیں
کسی کے حسن سے یہ ہم کو بد گمانی ہے
کہ پہلے نامہ سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
یہ امتحان کشش حسن و عشق کا ہے بنا
نہ ہم ادھر کو نہ اب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں
کبھی وہ آئینے میں دیکھتے ہیں اپنی شکل
کبھی وہ بیخودؔ آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں
غزل
عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں
بیخود دہلوی