EN हिंदी
عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں | شیح شیری
adu ko dekh ke jab wo idhar ko dekhte hain

غزل

عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں

بیخود دہلوی

;

عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں
نظر چرا کے ہم ان کی نظر کو دیکھتے ہیں

وہ رکھ کے ہاتھ سے آئینہ تن کے بیٹھ گئے
دہن کو دیکھ چکے اب کمر کو دیکھتے ہیں

کسی کے حسن سے یہ ہم کو بد گمانی ہے
کہ پہلے نامہ سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں

یہ امتحان کشش حسن و عشق کا ہے بنا
نہ ہم ادھر کو نہ اب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں

کبھی وہ آئینے میں دیکھتے ہیں اپنی شکل
کبھی وہ بیخودؔ آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں