عدوئے بد گماں کی داستاں کچھ اور کہتی ہے
مگر تیری نگاہ خوش بیاں کچھ اور کہتی ہے
خزاں کے دم سے اپنی خوش دلی کا ہے بھرم ورنہ
بہار آتے ہی یاد آشیاں کچھ اور کہتی ہے
سنو دل سے تو پھر ہر نغمۂ عشرت کے پردے میں
الم کی داستان خوں چکاں کچھ اور کہتی ہے
نظر ان کی زباں ان کی تعجب ہے کہ اس پر بھی
نظر کچھ اور کہتی ہے زباں کچھ اور کہتی ہے
ہزار انداز سے اہل ہوس اب دام پھیلائیں
نوائے طائر عرش آشیاں کچھ اور کہتی ہے
ترے لطف و کرم کا معترف ہے اک جہاں لیکن
کسی مجبور غم کی داستاں کچھ اور کہتی ہے
خوشا تیری نظر کا امتیاز جلوت و خلوت
وہاں کچھ اور کہتی تھی یہاں کچھ اور کہتی ہے
گلستاں میں بہار گل فشاں آنے سے کیا حاصل
کہ مستقبل کی تصویر خزاں کچھ اور کہتی ہے
وہ میرے حال پر ساحرؔ کبھی جو مسکراتے ہیں
تو دل سے اپنی سعئ رائیگاں کچھ اور کہتی ہے
غزل
عدوئے بد گماں کی داستاں کچھ اور کہی ہے
ساحر ہوشیار پوری