ادھوری قربتوں کے خواب آنکھوں کو دکھا جانا
ہزاروں دوریوں پر یہ ترا کچھ پاس آ جانا
اداسی کے دھندلکوں کا دماغ و دل پہ چھا جانا
نظر کے سامنے اک گمشدہ منظر کا آ جانا
سنی ہے میں نے اکثر بند دروازوں کی سرگوشی
صدائیں چاہتی ہیں سب کھلی سڑکوں پہ آ جانا
تری یادیں کہ اس طوفان ظلمت میں بھی روشن ہیں
ہوا مشکل ہوا کو ان چراغوں کا بجھا جانا
خلا میں ڈوبتی سی آہٹیں تھیں کچھ جنہیں ہم نے
سفر میں ساتھ رکھا منزلوں کا آسرا جانا
میں تیرے ساتھ ہوں تو اس کی خوشبو کے تعاقب میں
جہاں تک جا سکے اے سر پھری موج ہوا جانا
نظر اس کی بھی اے مخمورؔ دھوکا کھا گئی آخر
وہی تھا آشنا چہرہ جسے نا آشنا جانا
غزل
ادھوری قربتوں کے خواب آنکھوں کو دکھا جانا
مخمور سعیدی