ادب میں مدعیٔ فن تو بے شمار ملے
مگر نہ میرؔ کے غالبؔ کے ورثہ دار ملے
جنون عشق کو دامن تو تار تار ملا
مزا تو جب ہے گریباں بھی تار تار ملے
بڑے مزے سے گزاری ہے زندگی میں نے
خدا کے فضل سے حالات سازگار ملے
کسی کے دل پہ بھلا اختیار کیا ہوگا
بہت ہے اپنے ہی دل پر جو اختیار ملے
یہ کیا ستم ہے کہ اعدا تو پائیں حور و قصور
جو ان کے چاہنے والے ہیں ان کو دار ملے
مرے مزاج کو بخشا ہے انکسار اگر
بقدر ظرف طبیعت کو انکسار ملے
ہر اک عمل پہ مکلف بنا کے فرمایا
کہیں سے دیکھنا دامن نہ داغدار ملے
مرا مذاق ہے اکرام دوستاں وصفیؔ
وہ دل ہی پاس نہیں جس میں کچھ غبار ملے
غزل
ادب میں مدعیٔ فن تو بے شمار ملے
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی