عداوتوں کا یہ اس کو صلہ دیا ہم نے
انا کو اس کی ہمیں میں ڈبا دیا ہم نے
ملال و حزن سے ہو کر گزرتی راہوں کو
یقین و شوق سے پیہم ملا دیا ہم نے
مثال بن گئی محبوب اور حبیب کی ذات
یہ آئنہ سر عالم دکھا دیا ہم نے
تمام جبر و تشدد کی حد بھی ختم ہوئی
کہ جب سے صبر کو محور بنا دیا ہم نے
کسی خیال کا آنا محال ہے اب تو
تصورات کا خیمہ جلا دیا ہم نے
ابھی بھی انگلی اٹھانے کی رسم باقی ہے
ہر اک سبب کو اگرچہ مٹا دیا ہم نے
اب اور غرق تجسس نہ ہو مری خاطر
تمہیں تو فیصلہ اپنا سنا دیا ہم نے
یہ لازمی ہے کہ اسریٰؔ بھلا دیا جائے
جو راز دل کی زمیں میں دبا دیا ہم نے
غزل
عداوتوں کا یہ اس کو صلہ دیا ہم نے
اسریٰ رضوی