اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے
کہ فنکارانہ روتے تھے مگر آنسو نکل آئے
ہمیں اپنی ہی جانب اب سفر آغاز کرنا ہے
سو مثل نکہت گل ہو کے بے قابو نکل آئے
یہی بے نام پیکر حسن بن جائیں گے فردا کا
سخن مہکے اگر کچھ عشق کی خوشبو نکل آئے
اسی امید پر ہم قتل ہوتے آئے ہیں اب تک
کہ کب قاتل کے پردے میں کوئی دل جو نکل آئے
سمجھتے تھے کہ مہجوری کی ظلمت ہی مقدر ہے
مگر پھر اس کی یادوں کے بہت جگنو نکل آئے
دلوں کو جیت لینا اس قدر آسان ہی کب تھا
مگر اب شعبدے ہیں اور بہت جادو نکل آئے
سفر کی انتہا تک ایک تازہ آس باقی ہے
کہ میں یہ موڑ کاٹوں اس طرف سے تو نکل آئے
غزل
اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے
پیرزادہ قاسم