ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا
سب ایک رنگ میں ہیں مے کدے کے خورد و کلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا
قمار عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امید نفع میں خوف زیاں نہیں ہوتا
سہم رہا ہوں میں اے اہل قبر بتلا دو
زمیں تلے تو کوئی آسماں نہیں ہوتا
وہ محتسب ہو کہ واعظ وہ فلسفی ہو کہ شیخ
کسی سے بند ترا راز داں نہیں ہوتا
وہ سب کے سامنے اس سادگی سے بیٹھے ہیں
کہ دل چرانے کا ان پر گماں نہیں ہوتا
جو آپ چاہیں کہ لے لیں کسی کا مفت میں دل
تو یہ معاملہ یوں مہرباں نہیں ہوتا
جہاں فریب ہو مجذوبؔ یہ تری صورت
بتوں کے عشق کا تجھ پر گماں نہیں ہوتا
غزل
ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
خواجہ عزیز الحسن مجذوب