ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے
الٰہی کیوں نہیں ہوتی کوئی بلا نازل
اثر ہے دیر سے دست دعا اٹھائے ہوئے
تری لگائی ہوئی آگ حشر تک نہ بجھی
ہوئے نہ مر کے بھی ٹھنڈے ترے جلائے ہوئے
بلائے جاں ہے مگر پھر بھی آرزو ہے تری
ہم اس کو اپنے کلیجے سے ہیں لگائے ہوئے
سحر ہوئی کہ وہ یادش بخیر آتا ہے
چراغ ہیں مری تربت کے جھلملائے ہوئے
تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا
مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے
کسی کا ہائے وہ مقتل میں اس طرح آنا
نظر بچائے ہوئے آستیں چڑھائے ہوئے
اجل کو مژدۂ فرصت کہ آج فانیؔ زار
امید وصل سے بیٹھا ہے لو لگائے ہوئے
غزل
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
فانی بدایونی