EN हिंदी
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے | شیح شیری
ada se aaD mein KHanjar ke munh chhupae hue

غزل

ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے

فانی بدایونی

;

ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے

الٰہی کیوں نہیں ہوتی کوئی بلا نازل
اثر ہے دیر سے دست دعا اٹھائے ہوئے

تری لگائی ہوئی آگ حشر تک نہ بجھی
ہوئے نہ مر کے بھی ٹھنڈے ترے جلائے ہوئے

بلائے جاں ہے مگر پھر بھی آرزو ہے تری
ہم اس کو اپنے کلیجے سے ہیں لگائے ہوئے

سحر ہوئی کہ وہ یادش بخیر آتا ہے
چراغ ہیں مری تربت کے جھلملائے ہوئے

تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا
مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے

کسی کا ہائے وہ مقتل میں اس طرح آنا
نظر بچائے ہوئے آستیں چڑھائے ہوئے

اجل کو مژدۂ فرصت کہ آج فانیؔ زار
امید وصل سے بیٹھا ہے لو لگائے ہوئے