ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے
ہماری آنکھ میں اک شخص بے تحاشا ہے
ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق
یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے
تمہارا بولتا چہرہ پلک سے چھو چھو کر
یہ رات آئینہ کی ہے یہ دن تراشا ہے
ترے وجود سے بارہ دری دمک اٹھی
کہ پھول پلو سرکنے سے ارتعاشا ہے
میں بے زباں نہیں جو بولتا ہوں لکھ لکھ کر
مری زبان تلے زہر کا بتاشا ہے
تمہاری یاد کے چرکوں سے لخت لخت ہے جی
کہ خنجروں سے کسی نے بدن کو قاشا ہے
جہان بھر سے جہاں گرد دیکھنے آئیں
کہ پتلیوں کا مرے ملک میں تماشا ہے
غزل
ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے
عامر سہیل