اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مرے عزیز
رہنا ہے اپنی کھال کے اندر مرے عزیز
تیری منافقت پہ مجھے کوئی شک نہیں
میرے رفیق میرے برادر مرے عزیز
آ تیری تشنگی کا مداوا ہے میرے پاس
میرا لہو حلال ہے تجھ پر مرے عزیز
احساس جس کا نام ہے وہ چیز مستقل
چبھتی ہے میرے ذہن کے اندر مرے عزیز
اور اس میں تیر کر مجھے ہونا ہے سرخ رو
درپیش ہے لہو کا سمندر مرے عزیز
نادان واہموں کے تعاقب سے باز آ
کوئی نہیں کسی کا یقیں کر مرے عزیز
ممکن جو ہو تو اس سے رہائی دلا مجھے
مجھ پر ہے بار دوش مرا سر مرے عزیز
اظہار حق سے باز کب آتے ہیں ایسے لوگ
راہیؔ ہو یا ہوں شادؔ و مظفرؔ مرے عزیز
غزل
اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مرے عزیز
محبوب راہی