اچھے لفظوں سے نوازے یا وہ رسوائی کرے
اس کو حق ہے کہ برائی کرے اچھائی کرے
پیار تو سوچ کی دیوار ہلا دیتا ہے
کون اس ذہن کے دشمن سے شناسائی کرے
ہاتھ سے ہاتھ جھٹک دے کہ اسے تھامے رکھے
اس کو آزادی ہے جب چاہے وہ جی آئی کرے
کیا خبر خود کو ہی اب بیچنا پڑ جائے یہاں
کس کو معلوم ستم کیسے یہ مہنگائی کرے
کرب زنجیر کی مانند جکڑ لیتا ہے
بھائی کو سہنا ہی پڑتا ہے اگر بھائی کرے
میں نے ذہنوں سے قدامت کو کھرچ ڈالا ہے
شہر کا شہر مرے در پہ جبیں سائی کرے
پیار روحوں میں کشش بن کی دھڑکتا ہے نیازؔ
یہ وہ جذبہ ہے جو پل بھر میں شناسائی کرے
غزل
اچھے لفظوں سے نوازے یا وہ رسوائی کرے
نیاز حسین لکھویرا