EN हिंदी
اچھے دنوں کی آس لگا کر میں نے خود کو روکا ہے | شیح شیری
achchhe dinon ki aas laga kar maine KHud ko roka hai

غزل

اچھے دنوں کی آس لگا کر میں نے خود کو روکا ہے

افتخار راغب

;

اچھے دنوں کی آس لگا کر میں نے خود کو روکا ہے
کیسے کیسے خواب دکھا کر میں نے خود کو روکا ہے

میں نے خود کو روکا ہے جذبات کی رو میں بہنے سے
دل میں سو ارمان دبا کر میں نے خود کو روکا ہے

فرقت کے موسم میں کیسے زندہ ہوں تم کیا جانو
کیسے اس دل کو سمجھا کر میں نے خود کو روکا ہے

چھوڑ کے سب کچھ تم سے ملنے آ جانا دشوار نہیں
مستقبل کا خوف دلا کر میں نے خود کو روکا ہے

کٹتے کہاں ہیں ہجر کے لمحے پھر بھی ایک زمانے سے
تیری یادوں سے بہلا کر میں نے خود کو روکا ہے

واپس جانے کے سب رستے میں نے خود مسدود کیے
کشتی اور پتوار جلا کر میں نے خود کو روکا ہے

جب بھی میں نے چاہا راغبؔ دشمن پر یلغار کروں
خود کو اپنے سامنے پا کر میں نے خود کو روکا ہے