EN हिंदी
اچھا تھا کوئی خواب نظر میں نہ پالتے | شیح شیری
achchha tha koi KHwab nazar mein na palte

غزل

اچھا تھا کوئی خواب نظر میں نہ پالتے

سلیم سرفراز

;

اچھا تھا کوئی خواب نظر میں نہ پالتے
اک عمر صرف ہو گئی ان کو سنبھالتے

دنیا سنوارنے میں رہی اپنے خد و خال
ہم آئنوں پہ رہ گئے پتھر اچھالتے

آخر غبار دشت کے ہم راہ ہو لیے
کب تک ہم اس کو وعدۂ فردا پہ ٹالتے

کیڑے نکالتے ہیں گل نو بہ نو میں آپ
کیا خوب تھا جو کیڑوں سے ریشم نکالتے

رکھتے ہیں جو چراغ سر رہ گزار آپ
بہتر تھا اس سے اپنے ہی گھر کو اجالتے

قائم رہیں گے تم سے ہی گلشن میں رنگ و بو
رکھیو نہ اپنے ذہن میں ایسے مغالطے

رونا اسی کا آج بھی روتے ہو تم سلیمؔ
گزرے ہوئے زمانے پہ اب خاک ڈالتے