اچھا تھا کوئی خواب نظر میں نہ پالتے
اک عمر صرف ہو گئی ان کو سنبھالتے
دنیا سنوارنے میں رہی اپنے خد و خال
ہم آئنوں پہ رہ گئے پتھر اچھالتے
آخر غبار دشت کے ہم راہ ہو لیے
کب تک ہم اس کو وعدۂ فردا پہ ٹالتے
کیڑے نکالتے ہیں گل نو بہ نو میں آپ
کیا خوب تھا جو کیڑوں سے ریشم نکالتے
رکھتے ہیں جو چراغ سر رہ گزار آپ
بہتر تھا اس سے اپنے ہی گھر کو اجالتے
قائم رہیں گے تم سے ہی گلشن میں رنگ و بو
رکھیو نہ اپنے ذہن میں ایسے مغالطے
رونا اسی کا آج بھی روتے ہو تم سلیمؔ
گزرے ہوئے زمانے پہ اب خاک ڈالتے
غزل
اچھا تھا کوئی خواب نظر میں نہ پالتے
سلیم سرفراز