EN हिंदी
اچھا قصاص لینا پھر آہ آتشیں سے | شیح شیری
achchha qisas lena phir aah-e-atishin se

غزل

اچھا قصاص لینا پھر آہ آتشیں سے

سراج لکھنوی

;

اچھا قصاص لینا پھر آہ آتشیں سے
آؤ ادھر پسینہ تو پوچھ دوں جبیں سے

میرا نیاز پھر بھی ٹھکرایا جا رہا ہے
نکلی ہے رسم سجدہ گو میری ہی جبیں سے

مجبوریٔ محبت انصاف چاہتی ہے
شکوہ بھی ہے تمہیں سے فریاد بھی تمہیں سے

ہاں ہم بھی جانتے ہیں مدت سے ان بتوں کو
کعبے کے رہنے والے نکلے ہیں آستیں سے

سورج کی تیز کرنیں کام اپنا کر رہی ہیں
بیٹھا ہوں منہ چھپائے اک بھیگی آستیں سے

وہ سنگ در سلامت آنکھوں سے دیکھ لینا
اک دن طلوع ہوگا اک چاند اسی جبیں سے

پانی کی چادریں ہیں خشکی ہے موت ان کی
یہ اشک پاک ہوں گے ساحل کی آستیں سے

تھے آسماں کبھی ہم اب تو نظر سے گر کر
خود اپنی زندگی میں ہم مل گئے زمیں سے

سارا غرور سجدہ مٹی میں مل رہا ہے
اک نقش پا اٹھائے اٹھتا نہیں جبیں سے

کیوں ہوں سراجؔ پھر ہم محتاج دلنوازی
مل جائے مانگے جانچے کچھ درد اگر کہیں سے