اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے
اس کی قربت میں خوف سا لگ جائے
بس وہ اک سرسری نظر ڈالے
اور بیمار کو شفا لگ جائے
اس کا انکار ایسے لگتا ہے
جیسے پاؤں میں کانٹا لگ جائے
دھند میں ہاتھ چھوڑنے والے
تجھ کو موسم کی بد دعا لگ جائے
کیسے اس کا وجود ثابت ہو
ملحدوں کو اگر خدا لگ جائے
روز اک باغ سے گزرتے ہوئے
تجھ بدن کا مغالطہ لگ جائے
آپ کیا سوچ کر کہیں اس کو
اس کی مرضی ہے اس کو کیا لگ جائے

غزل
اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے
وسیم تاشف