اچھا ہوا کہ عشق میں برباد ہو گئے
مجبوریوں کی قید سے آزاد ہو گئے
کب تک فریب کھاتے رہیں قید میں رہیں
یہ سوچ کر اسیر سے صیاد ہو گئے
اس کیفیت کا نام ہے کیا سوچتے ہیں ہم
اور دوستوں کی ضد ہے کہ فرہاد ہو گئے
ملنے کا من نہیں تو بہانا نیا تراش
اب تو مکالمے بھی ترے یاد ہو گئے
بیزار بد مزاج انا دار بد لحاظ
ایسے نہیں تھے جیسے تیرے بعد ہو گئے
ثانیؔ فقط تمہارا لکھا جن خطوط پر
وہ تو کبھی کے زائد المیعاد ہو گئے
غزل
اچھا ہوا کہ عشق میں برباد ہو گئے
وجیہ ثانی