اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
دشوار تھا یہ کام پر آساں نکل گیا
بک بک سے ناصحوں کی ہوا یہ تو فائدہ
میں گھر سے چاک کر کے گریباں نکل گیا
پھر دیکھنا کہ خضر پھرے گا بہا بہا
گر سوئے دشت میں کبھی گریاں نکل گیا
خوبی صفائے دل کی ہماری یہ جانیے
سینے کے پار صاف جو پیکاں نکل گیا
ہنگامے کیسے رہتے ہیں اپنے سبب سے واں
ہم سے ہی نام کوچۂ جاناں نکل گیا
فرقت میں کار وصل لیا واہ واہ سے
ہر آہ دل کے ساتھ اک ارماں نکل گیا
بہتر ہوا کہ آئے وہ محفل میں بے نقاب
عارفؔ غرور ماہ جبیناں نکل گیا
غزل
اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
زین العابدین خاں عارف