ابر ناریل ندی راستے پہ میں اور تو
آتما کو کلپائے کوئلوں کی کو ہو کو
کوفہ تیرے کوچوں سے اپنا کارواں گزرا
سر سوار نیزوں پر قبلہ رو ستارہ جو
یا درون افسانہ تیری میری چاپ ابھرے
مدھ ملن کی راتوں میں یا جلیں بجھیں جگنو
روز آفرینش سے اپنی ہم قدم سجنی
پنچھیوں کی چہکاریں بنسیوں کی ہاؤ ہو
راہ گزار پرگیاں تو ملے سدا سیاں
کر گیا ہے بے قابو تیرے پیار کا جادو
گات پر شرارت سے پھولتی ہوئی پروا
بھید اور بھیتر میں جھولتی ہوئی خوشبو
پیچھے پیچھے شہزادہ بیتی داستانوں میں
آگے آگے گھوڑے کے بھاگتا ہوا آہو
موڑ اک کہانی کا سچ کی پاسبانی کا
العطش کی آوازیں دشت میں کنار جو
غزل
ابر ناریل ندی راستے پہ میں اور تو
ناصر شہزاد